کسی تہذیب کے انسانی اور اخلاقی میعار کو دیکھنا ہو یا اس نظر سے اُس کا جائزہ لینا ہو کہ یہ تہذیب اپنی مسلمہ اقدار کو productivley محفوظ کرنے میں کامیاب ہے یا نہیں تو اس کے لیے اگر صرف اُس تہذیب میں مروج نظامِ تعلیم اور تصورِ علم کا جائزہ لے لیا جائے تو ہم اُس کے میعار کے بارے میں، اُس کی زندگی کے امکان کے بارے میں، یا اُس کی موت کے خدشات کے بارے میں قطعیت اور تیقن سے کچھ نتائج قائم کر سکتے ہیں۔
اس وقت پاکستان ہی نہیں بلکہ تقریباً پوری تیسری اور دوسری دنیا اور خاص طور پر ملتِ مسلمہ ایک بھیانک تہذیبی بحران اور اخلاقی عدمِ استحکام کا شکار ہے، خصوصاً مذہبی کہلائے جانے والے معاشرے یا دین کو اپنے لیے بنیادی اہمیت دینے کا دعویٰ کرنے والی سوسائٹیز اس بحران میں زیادہ مبتلا ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ آج مسلمانوں میں ایک ایسی تہزیبی تھکن طاری ہے جس نے اُن کے انفرادی وجود کی تشکیل کے نظام کو بھی غارت کر رکھا ہے اور ان کے اجتماعی وجود کے اخلاقی اور دیگر مطالبات پورے کر سکنے والے راستوں کو جیسے بہت زور لگا کر بند کر رکھا ہے۔ اس وقت ہم میں سے ہر شخص کی کم از کم اتنی ذمہ داری ضرور ہے کہ وہ اپنی تہذیب سے، اپنے دین سے، وفاداری کا ثبوت دے اور اس صورتِ حال سےنکلنے میں انفرادی اور اجتماعی سطح پر طاری اس زوال سے باہر آنے میں اپنے بس بھر جو کوشش کرسکتا ہے، کرے تو میرے لیے یہ بہت اطمینان اور خوشی کی بات ہے، اُمید کی بات ہے کہ ہمارے دوست شاہد رشید صاحب نے زاویہ ٹرسٹ اسکول کا ایک بہت جامع آئیڈیا فارم کیا اور اس کے بعد اس آیئڈیا کو عمل میں لانے کے لیے، زاویہ ٹرسٹ اسکول کے قیام کا انتظام کیا۔ میری اس معاملے میں شاہد رشید صاحب کے اس منصوبے پر اُن سے خاصی گفتگوئیں رہی ہیں اور مجھے یہ دیکھ کر بہت احساسِ فخر سا ہوا کہ وہ تصورِ علم، تصورِ تعلیم، تصورِ تربیت کا گہرا شعور رکھتے ہیں۔ اپنے زمانے میں مروج تعلیمی نظاموں کا تنقیدی جائزہ لینے والی بصیرت رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ہمارے اندر جاری جو مختلف سطح اور مختلف جہتوں کے نظامِ تعلیم ہیں ان کے خالی، ناکارگی اور بے اثری کو بہت اچھی طرح سمجھتے ہی نہیں بلکہ تعلیم کے میدان میں ہماری ہر طرح کی پسماندگی کے ٹھوس اسباب کا بھی شعور رکھتے ہیں۔
زاویہ ٹرسٹ اسکول شاہد رشید صاحب کا گویا Brainchild ہے اور یہ اپنے اوپر، اپنی قوم، اپنی تہذیب ، اپنی ملت اور اپنے دین کی طرف سے جس ذمہ داری کا شعور رکھتے ہیں، وہ صرف ذہن کے خیالات کی طرح نہیں ہے بلکہ یہ آئیڈیا اِن کا passion بھی بن گیا ہے اور لگتا یہ ہے کہ یہ گویا اِس تصور کی تکمیل میں اپنی ساری زندگی اپنی تمام صلاحیتوں کے ساتھ لگا دینے کا عزم رکھتے ہیں۔