کسی حد تک جنریشن گیپ ایک فطری مظہر ہے، مگر آج اس گیپ بارے جتنی تشویش پائی جاتی ہے ایسا ماضی میں دیکھنے میں نہیں آیا۔ اس بڑھتے ہوئے گیپ کی وجوہات کا کھوج لگانا ایک علیحدہ اور بڑا موضوع ہے۔ یہاں اس گیپ کے نتیجے میں پیدا ہونے والےایک مسئلے یعنی تربیت پر بات کی جا ری ہے۔
علم کو کلیت میں دیکھنے کے برعکس اسےاجزا میں تقسیم کرنے کا حادثہ یورپ میں چند صدیاں پیشتر رونما ہوا۔ قبل مسیح کا یورپ ہو یا قرون وسطیٰ کا، علم کا متلاشی بلا تکلف مابعد الطبعیات، شاعری، فلسفہ، جغرافیہ، طب اور دیگر مروجہ علوم سے اپنا حصہ وصول کر سکتا تھا۔ علم بجائے خود مقصد تھا۔ کم و بیش یہی صورت یورپی نشاۃ الثانیہ کے ابتدائی دور میں بھی موجود تھی، بلکہ ایسے فرد کو Renaissance Man ہی کہا جاتا تھا۔ مشرق میں بھی ایسا ہی تھا۔ گویاعلم دین اور دنیا، فرد اور معاشرہ، تعلیم اور تربیت جیسی کسی ثنویت پر قائم نہی تھا۔ اشیا کو اجزا میں تقسیم در تقسیم کرنا جدید دور کی ضرورت بلکہ مجبوری بن چکا ہے۔ لہذا زندگی کو مختلف خانوں میں تقسیم کر کے دیکھا جانےلگا ہے۔ یہ فیصلہ کرنا اب مقتدر قوتوں کے ہاتھ میں آتا جا رہا ہے کہ علم کی ماہیت کیا ہے اور اسے کس درجے کے اور کس قدر” تعلیم یافتہ ” افراد درکار ہیں۔
ہمارے معاشرے میں خوش قسمتی سے مغربیانے کا عمل ، بہت سی وجوہات کی بنا پر ، پوری طرح پنپ نہیں سکا، مگر بدقسمتی سے تعلیمی شعبے میں دینی اور دنیوی ، تعلیم اور تربیت کی تقسیم پوری طرح قائم ہو چکی ہے، جیسے یہ بات کہیں طے ہو گئی ہو کہ دین کے علم سے مراد قران اور حدیث سے متعلق علم ہےاور کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم کا مطلب دنیوی تعلیم ہے اور یہ دونوں ریل کی پٹڑیوں کی مانند ساتھ ساتھ جا سکتی ہیں، مگر مل نہیں سکتیں۔ اسی طرح یہ سوچ راسخ ہو چکی ہے کہ تعلیم کی فراہمی تعلیمی اداروں کی ذمہ داری اور تربیت کی ذمہ داری کا بوجھ والدین یا گھر کے سر پر ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا اکہ دین اور دنیا ، تعلیم اور تربیت دو مختلف منطقوں کی اشیا بن کر رہ گئیں، جس کا نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔ دراصل سارا فساد مروجہ تصور تعلیم کا پھیلایا ہوا ہے، جس کی رو سے تعلیم کا مقصد ملازمت حاصل کرنا یا کسی معاشی سرگرمی کا حصہ بننا ہے۔ تعلیم حاصل کرنا ایک انوسٹمینٹ ٹھری۔
اخلاقی تربیت محض پند و نصائح کے ذریعے نہیں کی جا سکتی۔ اسے دیا نہیں اخذ کیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے تعلیمی اداروں اور گھروں کی عمومی فضا فرد کی اخلاقی تربیت کے لیے سازگار نہیں رہ گئی اور اس کا بنیادی سبب تعلیم اور تربیت میں دوئی کا قائم ہو جانا ہے۔ اس وقت ہمیں ایک ایسے تعلیمی نظام اور ماحول کی اشد ضرورت ہے جو اس دوئی کو پاٹ سکے۔
تحریر: صفدر رشید، اسلام آباد