ایک یاد دہانی
تحریر: راؤ کامران علی، ایم ڈی
زاویہ اسکول پر میں نے متعدد بار قلم اٹھایا ہے۔ یہ یاد دہانی اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہم نیکی اور خیر کے کام جلد بھول جاتے ہیں۔
ہمارے ملک میں کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ ہوتا رہتا ہے جو ہمیں نئے سرے سے معاشرے کا تجزیہ کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ آخر ہم زوال کی دلدل میں کیوں دھنستے چلے جا رہے ہیں؟ انتہا پسندی اور جہالت ہمارا مقدر کیوں ہے؟ ہماری اپنی خرابیوں اور بربادیوں کا سرا کیوں ہاتھ نہیں آرہا؟
میں ایک ایسے شخص کو جانتا ہوں جس نے صرف اس لیے سوشیالوجی کا علم حاصل کیا کہ وہ اس بیمار سماج کا کلینیکل بنیادوں پر تجزیہ کر سکے۔ یہ شخص ڈاکٹر شاہد رشید ہے جس کا تجزیہ یہ ہے کہ ہمارے دکھوں کی جڑیں ہماری تعلیم میں ہیں۔ بات صرف یہ نہیں کہ ہمارے یہاں خواندگی کی شرح میں اضافے کی ضرورت ہے۔ بات یہ ہے کہ ہماری تعلیم صحت مند اور متوازن شخصیت کی تخلیق سے قاصر ہے۔
شاہد رشید بوریوالہ کالج میں مجھ سے تین سال سینئر تھا۔ شاہد نے 1990 میں ایف ایس سی میں مُلتان بورڈ ٹاپ کیا تھا اور ملتان بورڈ کی تاریخ میں ایک ریکارڈ قائم کیا تھا۔ یونیورسٹی آف انجنئیرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور سے الیکٹریکل انجنیئرنگ کے بعد پی سی ایس کا امتحان پاس کرکے مجسٹریٹ بن گیا اور شاید پہلا ٹرینی مجسٹریٹ تھا جو سائیکل پر کچہری جاتا تھا۔ قانون کو مزید جاننے کے لئے ایل ایل بی امتیازی پوزیشن میں پاس کیا۔ پھر سی ایس ایس کا امتحان دے کر ڈائریکٹر آڈٹ تک ترقی کی اور اس دوران آکسفورڈ یونیورسٹی سے سوشیالوجی میں ماسٹرز کی ڈگری لی اور اسلامی فکر و تہذیب میں پی ایچ ڈی کی۔ درس و تدریس کے شعبے سے دلچسپی کے باعث ایف سی کالج میں پڑھانا شروع کیا اور افسری کو خیرباد کہہ دیا۔ آج کل ایف سی کالج میں سوشیالوجی پڑھاتا ہے۔
درحقیقت شاہد کا تعارف اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ وہ ایک باہمت، باشعور اور حساس انسان ہے جس نے اپنے آپ کو معاشرے کی تعمیر نو کے لیے وقف کر دیا ہے۔ گزشتہ پندرہ سالوں میں اس نے اسلام کا گہرا مطالعہ کیا ہے۔ اردو، انگریزی کے بعد عربی اور فارسی زبانوں پر عبور حاصل کیا۔ اسلام اور جدیدیت (Modernity) اس کا خصوصی مطالعہ ہے اور ان موضوعات پر جس زبان میں بھی کام ہوا ہو، اس کی تلاش میں رہتا ہے۔ ایف سی کالج کا ایک قابل اور مقبول پروفیسر ہے۔ شاہد، علم اور عمل کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ انتہائی میٹھا لہجہ اور انتہائی مدلل گفتگو۔ اس کے طالب علموں میں خوانچہ فروشوں سے لے کر بیرونِ ملک یونیورسٹیوں کے پروفیسر تک شامل ہیں لیکن کبھی کوئی ایسا لفظ سننے کو نہیں ملے گا جس سے غرور یا برتری کا شائبہ ہو۔
شاہد رشید کا تجزیہ یہ ہے کہ ایک ایسے تعلیمی نظام کی ضرورت ہے جو جدید تعلیمی نصاب رکھنے کے ساتھ ساتھ ہماری دینی اور تہذیبی اقدار کو مرکزی حیثیت دے۔ دینی تعلیم اس طرح دی جائے جو اسلام کی ابدی اور عالمگیر اقدار کو روشناس کرا سکے۔
ہر مسلمان کی طرح شاہد بھی تفرقہ بازی اور دہشتگردی کے حوالے سے فکرمند ہے لیکن ایک انقلابی اور ایک عملی انسان محض تشویش کے اظہار تک محدود نہیں رہ سکتا۔ اسے اس کا حل نکالنا ہوتا ہے اور کم علمی کی وجہ سے بڑھتی دہشت گردی کا حل ہے ایسے اسکول کا قیام جہاں دنیاوی تعلیم ہارورڈ کے معیار کی ہو اور دینی تعلیم ایسی ہو جو بچوں میں گہرا اخلاقی شعور بیدار کر سکے۔ تعلیم کے ساتھ تربیت ہو۔ اس کے لئے شاہد رشید نے چند دوستوں کے ساتھ مل کر لاہور میں زاویہ ٹرسٹ اسکول کی بنیاد رکھی ہے۔ آج اس اسکول کو کامیابی سے چلتے ہوئے پانچ سال سے زائد ہوگئے ہیں۔
الحمدللہ، زاویہ اسکول بطور ایک پائلٹ پراجیکٹ کامیاب رہا، مگر اب تک اس کا اپنا مستقل کیمپس نہیں ہے، اور گزشتہ چند سالوں میں زاویہ اسکول کو تین مختلف کرائے کی عمارتوں میں منتقل ہونا پڑا۔ ایک الگ مستقل کیمپس اس لیے بھی ضروری ہے کہ شاہد تعلیم و تربیت کا ایک ایسا مرکز بنانا چاہتا ہے جس کے ساتھ دوسرے تعلیمی ادارے بھی منسلک ہو سکیں اور یہاں نوجوانوں کے لیے تعلیم و تربیت کے عمومی پروگرام بھی ہو سکیں۔
زاویہ ٹرسٹ اس وقت زمین کے حصول کے آخری مرحلے میں ہے، جہاں ایک بوائز اسکول، ایک گرلز اسکول، اور ایک اسلامک سنٹر تعمیر کیا جائے گا۔
پچھلے سال زاویہ نے لاہور کے علاقے سندر میں زمین خریدنے کا معاہدہ کیا، اور اب تک کل رقم کا تقریباً 80 فیصد ادا کیا جا چکا ہے۔ تاہم، اب بھی 3 کروڑ روپے کی ادائیگی باقی ہے۔ اس ہدف تک پہنچنے کے لیے آپ کے تعاون کی ضرورت ہے۔
میں قارئین کو دعوت دیتا ہوں کہ زاویہ اسکول کے مشن کو اپنائیں۔ اگر پوری دنیا سے صرف 45 لوگ ایک ایک مرلہ ڈونیٹ کر دیں تو یہ مرحلہ ان شاءاللہ مکمل ہو جائے گا۔ ایک مرحلے کی قیمت ساڑھے چھ لاکھ روپے ہے۔ یہ ڈونیشن تین چار مہینوں میں قسط وار بھی دی جا سکتی ہے۔ اس زمین پر مستقبل کی کتنی ہی نسلیں تعلیم و تربیت سے آراستہ ہوں گی۔ یہ ایک عظیم صدقہ جاریہ ہے اور معاشرے کو کچھ واپس کرنے کا ایک موقع۔