(زاویہ ٹرسٹ اسکول کے بارے میں احمد جاوید صاحب کے خیالات (دوسری اور آخری قسط

زاویہ ٹرسٹ اسکول کا بنیادی تصور اپنی پوری ساخت میں بہت نیچرل ہے، انسان کی نفسیاتی بناوٹ کے عین مطابق ہے۔ یہ اپنے جس تخلیقئ تصورِ علم کو عمل میں لانے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اس ارادے کی تکمیل کے لیے اپنی تمام صلاحیتوں کو صرف کر دینے کا عزم رکھتے ہیں، وہ ہے ایک ایسی تعلیم جو ہمارے بچوں کے دینی، اخلاقی، عقلی اور جمالیاتی مطالبات کو پورا کرے اور ہمارے اندر جو دولختی پیدا ہو گئی ہے، دین کے علم اور دنیا کے علم، یا مختلف علوم کے درمیان جو ناقابلِ عبور دیواریں کھڑی ہو گئی ہیں جس کی وجہ ذہن کئی خانوں میں بٹ گیا ہے اور ان خانوں میں بھی اکثر خالی رہ جاتے ہیں۔

مجھے یہ بڑا اچھا لگا کہ شاہد رشید صاحب ایک کلی اور وحدت اساس تصورِ علم رکھتے ہیں اور ان کے یہاں علم کے سلسلے میں کسی بھی عنوان سے دولختی یا انتشار نہیں ہے اور یہ اس نکتے تک اپنی کوششوں سے اور اپنے اخلاص سے خود پہنچے ہیں کہ ہمیں تعلیم کا ایک ایسا نظام بنانا ہے جو نہ صرف ہماری فوری ضروریات کو پورا کرے یعنی دنیا سے تعلق میں ہمیں ایک مظبوط پوزیشن پر کھڑا کرے بلکہ ہماری اندرونی conditioning بھی ہماری تہذیب اور ہمارے دین کے اخلاقی اصول پر استوار کرے۔

انسان کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ وہ اپنے مجموعی شعور اور اپنے مجموعی وجود کو مربوط کرکے فعال رکھنے میں کامیاب ہو جائے۔ Holistic نظریہِ تعلیم دراصل انسان کی اس تقدیری آرزو کو پورا کرنے کے لیے ترتیب دیا جاتا ہے کہ اس کا کل شعور اور اس کا کل وجود ایک ہی اصول پر نمو پائے۔ سقراط کا نظریہ علم بھی یہیں سے عمل میں آتا ہے کہ ہر علم کا حاصل اخلاقی ہوتا ہے۔ علم چاہے کوئی بھی ہو اگر وہ اخلاقی نتائج پیدا نہیں کر رہا تو اس میں گویا جہل کی آمیزیش ہے۔ اس بات پر نظر رکھنا بہت ضروری ہے کہ بچے کے اندر اخلاقی شخصیت بننے کا عمل ذہنی شخصیت بننے کے عمل سے پہلے شروع ہوجاتا ہے۔ اس لیے وہ نظامِ تعلیم ہی ہماری تہذیبی، اخلاقی اور دینی ضرورتیں پوری کر سکتا ہے جس میں دس فیصد تدریس ہو اور نوّے فیصد تربیت ہو۔ تربیت کہتے ہیں اخلاقی وجود کی ایسی آبیاری جو ذہن کے لیے بھی معلم، راہنما اور روشنی کا کردار ادا کرے۔

زاویہ ٹرسٹ اسکول کے تصورِ علم میں مجھے یہ بات بہت کشش والی لگتی ہے کہ انہوں نے اس نکتے کو سمجھا ہے اور اپنی اس سمجھ کو اب وہ ایک نظام کی شکل دینا چاہتے ہیں۔ وہ یہ کہ اخلاقی تشکیل کے فطری عمل کو ذہنی تربیت کا وسیلہ بنایا جائے نہ کہ ذہن کو معلومات فراہم کرکے اخلاقی نمو کے عمل کو یکسر نظر انداز کر دیا جائے جیسا کہ ہمارا جدید نظامِ تعلیم ہی نہیں بلکہ اب مذہبی طریقہِ تعلیم  بھی اسی روش پر چل پڑا ہے کہ اخلاقی آبیاری نہیں کرتا۔

شاہد رشید صاحب نے زاویہ ٹرسٹ اسکول کو اس تصور پر وضع کرنے کا ڈول ڈالا ہے کہ ہم ذہن کو اخلاقی وجود کا حصہ بنائیں گے اُس پر کوئی جبر کیے بغیر یعنی ذہن حالتِ آزادی میں رہے اور نفس احساسِ ذمہ داری میں رہے، اسی سے مکمل آدمی کی تشکیل ہوتی ہے۔

بچہ اپنی تہذیب کا سچا اور pure ، container ہوتا ہے۔ اس خالص ظرفِ تہذیب کو آگے چل کر اپنی تہذیب کے تمام مطالبات پورا کر سکنے کے لائق بنانا، یہ ہمارے نظامِ تعلیم کی سب سے زیادہ نظر انداز شدہ ضرورت ہے۔ زاویہ ٹرسٹ اسکول کے قیام کے بعد، خواہ کچھ محدود پیمانے پر سہی، اس ضرورت کے پورا ہونے کا قوی امکان ہے۔

اگر ہم میں سے کچھ لوگ بھی اپنے دین اور اپنی تہذیب کے انفسی اور آفاقی اصول اور ان کے مظاہر کی بقا میں سنجیدگی سے دلچسپی رکھتے ہوں تو میرے خیال میں انہیں ضرور زاویہ ٹرسٹ اسکول کی کمک پر آنا چاہیے۔ آج کل کی دنیا ایسی ہو گئی ہے کہ خیر کو بھی Manifest ہونے کے لیے کچھ وسائل کی ضرورت ہوتی ہے جو اصحابِ خیر کے تعاون سے ہی پوری ہو سکتی ہے۔

میں بہرحال اپنے طور پر، اپنے دوستوں کی سطح پر، اس مشن میں جس قابل بھی ہوں، حاضر ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ جن لوگوں تک یہ بات پہنچے، انہیں یہ عزم کر لینا چاہیے۔ یہ کوئی اشتہاری مہم نہیں ہے۔ یہ ایک طرح سے تجدیدِ تہذیب اور احیائے انسان کی کوشش ہے۔ ایسے کاموں سے بے اعتناعی برتنا، ایسے کاموں میں ایثار کے جذبے کے ساتھ شامل نہ ہونا گویا اپنی تہذیب کو مرنے کے لیے چھوڑ دینا ہے۔

پہلی قسط

× Message us